سائے میں جا بیٹھی ۔ دو چار دن کی بھوکی پیاسی تو تھی ہی۔ بے اختیار نیند آگئی۔
خواب میں کیا دیکھتی ہے کہ ایک بزرگ سفید لباس پہنے سرہانے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ غم نہ کرو وہ کریم کار ساز ہے۔ اس
درخت کے نیچے سات بادشاہوں کی دولت گڑھی ہے۔ اللہ نے یہ تیرے لیے ہی چھپا
رکھی ہے۔ اب اٹھ اور اس خزانے کو اپنے کام میں لا۔ دل کو اللہ کی یاد میں لگا۔
حسن بانو نے کہا کہ میں ایک عورت ناتواں زمین کیوں کر کھودوں؟ بزرگ نے کہا:
تو ایک لکڑی سے زرا کوشش کر اور اللہ کی قدرت دیکھ کہ وہ اس مشکل کو بہت
آسان کرتا ہے۔
یہ سن کر حسن بانو چونک اٹھی اور دائی سے حقیقت کہنے لگی۔ آخر کار اس نے
اور اس کی دائ نے جب اس درخت کی جڑ ایک لکڑی سے کھو دی تو سات کنویں
اشرفیوں سے بھرے اور سو صندوق جواہر سے لبالب مع اس موتی کے جو مرغابی
کے انڈے کے برابر تھا دکھائی دیے۔ حسن بانو نہایت خوش ہوئی اور اللہ کا شکر کر
کے اور دائی سے کہنے گی کہ تم اسی گھڑی شہر سے ہمارے کنبے والوں کو لے آؤ اور
کھانے پینے کی چیز یں بھی لیتی اؤ اس نے کہا میں تجھے تنہا کیسے چھوڑوں۔ وہ اس بات
چیت میں تھیں کہ حسن بانو کا دودھ شریک بھائی فقیروں کا بھیس بنائے آنکلا.
حسن بانو نے اسے گلے لگا لیا اور دلا سادیا که تو اطمینان رکھ اللہ نے اس قدر
زر و جواہر دیا ہے کہ جس کا حساب نہیں۔ تو یہ رقم لے کر شہر سے ہمارے تمام
کنبے کو لے آ اور راج مزدور بھی تاکہ وہ ایک عالی شان عمارت تیار کریں۔
میں چاہتی ہوں کہ ایک شہربشربساؤں اور اس کا نام شاه آباد“ رکھوں ، لیکن
یہ ابھی کسی پر ظاہر نہ کرنا۔ چناں چہ وہ تھوڑے سے روپے لے کر شہر گیا اور تمام
عزیزوں کو لے کر حسن بانو کے پاس گیا۔ وہ سب بہت خوش ہوئے ایک بڑا
سا خیمہ لگا کر اس میں رہنے لگے.
اس کے بعد وہ کاری گروں کو لے آیا اور مہینے میں ایک حویلی
تیار ہوگئی۔ پھر حسن بانو نے حویلی کے گرد ایک عالی شان شہر آباد کرنے کا ارادہ کیا۔
اس پر لوگوں نے کہا کہ بادشاہ کی مرضی کے بنا اتنا بڑا شهربسانا اچھا نہیں۔ یہ سن کر
حسن بانو نے مردانہ لباس پہنا اور ایک عربی گھوڑے پر سوار ہو چند پیادوں کو آگے
رکھا ایک خوان جواہر اور ایک یاقوت کا اپنے ساتھ لے کر شہر کی طرف روانہ
ہوئی۔
بادشاہ کو خبر ہوئی کہ ایک سوداگر بچہ حضور کی قدم بوسی کے لیے آیا ہے۔ بادشاہ
نے اجازت دی تو وہ حاضر ہو کر آداب بجا لائی اور نذر کے خوان پیش کر کے امید
وار مہربانی کی ہوئی۔ بادشاہ نے خوش ہو کر پوچھا کہ تم کسی شہر کے رہنے والے ہو
اور کسی کام کو آئے ہو۔ تمھارا نام کیا ہے؟
وہ ہاتھ باندھ کر بولی : "میں فلاں سوداگر کا بیٹا ہوں۔ والد جہاز پر مر گئے۔
عرصے سے قدم بوسی کی آرزو تھی۔ آج قسمت کی مدد سے یہاں تک پہنچا ہوں۔
اب باقی عمر حضور کے سائے میں بسر کرنا چاہتا ہوں۔ لذا اگر کم ہو تو فلاں جنگل
میں ایک شہر آباد کر کے نام اس کا ’’شاه آباد" رکھوں۔"
بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا:
آج سے تو میری فرزندی میں داخل ہے۔ جہاں چاہے وہاں رہ جو چاہے سو کر
حسن بانو نے آداب بجا لا کر کہا:
اے خداوند اگر غلام کو شاہ زادوں میں شمار کیا ہے تو کسی عمده خطاب سے
بھی سرفراز فرمایئے۔ میرا نام بہرام ہے۔ جو اس لائق نہیں۔ جہاں پناہ نے اس
بات کو پسند کیا اور اس کا نام ”ماه روشاه" رکھا اور ہر ایک کارکن کو حکم دیا کہ اس
شہر کو آباد کرنے میں مشغول ہو جائیں۔
حسن بانو مہینے میں دو تین بار بادشاہ کو سلام کرنے آتی رہتی تھی۔ دو برس کے
بعد ایک عظیم شہر آباد کیا۔ نام اس کا شاه آباد رکھا۔ ایک دن بادشاہ کو سلام کرنے
جو آئی تو بادشاہ اس وقت اس درویش بزرگ صورت‘ مگر شیطان سیرت کے ہاں
جانا چاہتے تھے۔ حسن بانو کو دیکھ کر کہنے لگے کہ فرزند آج ہم تم دونوں اس بزرگ
کی خدمت میں حاضر ہوں۔ غرض حسن بانو بادشاہ کے ساتھ اس فقیر کے گھر گئی اور
بادشاہ اس شیطان کے آگے اس کی تعریف کرنے لگا۔
حسن بانو اب ماه روشاہ کے نام سے مشہور تھی۔ سر جھکا کر تعریفیں سنتی رہی۔
جب رخصت ہونے لگے تو ماه روشاه نے اس فقیر سے کہا کہ اگر پیر و مرشد اس
کے گھر میں قدم رنجہ فرمائیں تو عین نوازش ہو۔
اس شیطان سیرت نے آنے کا وعدہ کر لیا - ماه روشاه نے پھر بادشاہ سے کہا کہ
میری حویلی دور ہے۔ لہذا اگر برزخ سوداگر کی خالی حویلی دو چار روز کے لیے عنایت
کریں تو غلام اس ولی کی دعوت وہیں کرے۔ بادشاہ نے کہا: ”اے ماہ روشاه ‘ وہ
حویلی مرمت طلب تھی اس کو درست کیا گیا اور نہایت قیمتی سامان سے
آراستہ کیا گیا۔ ماہ روشاہ پھر بادشاہ کے پاس گیا اور بولا :
جہاں پناہ ارادہ ہے کہ چند روز برزخ سوداگر کی حویلی میں رہوں۔ سلام کو
بھی روز حاضر ہوا کروں، لیکن کل اپنے پیرو مرشد کی تواضع کریں۔
بادشاه نے فرمایا: "بہت بہتر»
بادشاہ سے رخصت ہو کر حسن بانو نے ایک آدمی سے کہا کہ تو جاکر اس فقیر
سے یہ عرض کر کہ کل اگر تشریف لے آئیں تو بڑا کرم ہو۔ فقیر نے دعوت قبول کر
لی اور صبح کو فقیروں کو ساتھ لیے سونے کی اینٹوں پر پاؤں رکھتا ہوا چلا۔ شاہ زادے
نے اس کو مسند شاہانہ پر بٹھایا زرو جواہر کے خوان پیش کیے مگر فقیر نے قبول نہ
کیے۔ پھر کئی خان میوے کے منگوائے اور ایک دستر خوان زر مفت کا بچھوایا اور
ہاتھ دھلا کر عرض کی کہ پیرو مرشد کچھ نوش فرمائیں۔ یہ سن کر اس نے ہاتھ بڑھايا
مگر دو چار لقمے کھا کر کہا کہ بس، فقیروں کو پیٹ بھر کر کھانا اچھا نہیں۔ عبادت نہ کر
سکیں گے مگر فقیر اپنے دل میں کہتا تھا کہ سب اسباب اپنا ہی ہے
پھر ایک
عطر دان پان دان آگے لا کر رکھا۔ اس نے عطر ملا اور گھڑی دو گھڑی کے بعد
فقیر اپنے گھر آکر چوروں سے کہنے لگا کہ آج ہی رات تمام اسباب جا کر اپنے
گھر لے آئیں۔ جب رات ہو گئی تو اس نے چوروں کے کپڑے پہنے اور انھی
چالیس کو لے کر اس حویلی کی طرف چلا۔ ماه روشاه نے تمام اسباب اسی طرح
رہنے دیا تھا اور اپنے آرمیوں کو کہہ رہا تھا کہ مستر بیٹھے رہیں اور ایک رقعه شهر
کے کوتوال کو لکھ بھیجا کہ آج کی رات ڈاکا پڑنے کی خبر ہے۔ تم کچھ آدمیوں کو لے
کر جلد آؤ اور کونے میں چھے گھات میں رہو۔ جس وقت حویلی سے شور و غل کی
آواز بلند ہو اسی گھڑی تم آجانا اور چوروں کو باندھ لیا چناں چہ کوتوال دو سو پیادوں
کے ساتھ حویلی کے دائیں بائیں آ کر بیٹھ رہا کہ اتنے میں وہ فقیر اپنے چوروں کے
ساتھ حویلی میں جاگھسا اور اسباب لوٹنے لگا۔ ہر ایک نے گٹھڑی باندھ کر سر پر رکھی۔
وہ فقیر بھی مرصع طاؤس کو لے کر حویلی سے باہر نکلا۔ پیادے تو ان کی تاک میں تھے
۔ اپنی اپنی جگہ سے کودے اور ان کو باندھنے لگے ۔ اس قدر شور و غل ہوا کہ کوتوال خود چلا
آیا۔ حسن بانوان دشمنوں کو گرفتار دیکھ کر نہایت خوش ہوئی۔
صبح کو بادشاہ تخت پر جلوہ افروز ہوئے وزیر امیر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔
اتنے میں کوتوال ان سب کو باندھے ہوئے آیااور بولا :
”جہاں پناه رات برزخ سوداگر کی حویلی میں چوری ہوئی ۔ یہ نمک خوار وہاں
پڑا اور چوروں کو مع زر و جواہر کے لیے آیا ہوں۔ بہ ظاہر صورت آشنا معلوم
ہوتے ہیں۔
اتنے میں ماہ روشاہ بھی آ گیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ اے فرزند رات
تمھارے ہاں چور آگئے؟ اس نے کہا:
” ہاں اگر کوتوال وقت پر نہ پہنچا تو میں مارا جاتا۔»
یہ سن بادشاہ نے کہا کہ چوروں کو ہمارے سامنے لاؤ۔ چور لائے گئے۔ بادشاہ
اٹھا اور بولا کہ اے فرزند یہ تو ہمارے ارزق شاہ صاحب معلوم ہوتے ہیں۔ انھیں
اور نزدیک لاؤ۔ چناں چہ وہ آگے آئے اور بہ خولی پہچانے گئے۔ کوتال کو حکم دیا کہ
ان کی گٹھریاں اور کریں کولو جب تلاشی لی گئی تو ہر ایک کے پاس سے مال اور
کمندیں اور پانیاں نکلیں۔
بادشاہ نے کہا کہ ان کو ابھی سولی دو تاکہ پھر کوئی ایسی دغا بازی نہ کرے
۔ بادشاہ کے
زبان ہلانے کی دیر تھی کہ جلاد نے ہر ایک کا کام تمام کیا۔
تب حسن بانواٹھی اور ہاتھ باندھ کر بولی: ”جہاں پناه! یہ لونڈی برزخ سوداگر کی
بیٹی ہے۔ حضور نے اس بے حیا فقیر کے واسطے لونڈی کو شہر بدر کیا تھا۔ میرے باپ
کا مال اس کے گھر میں ہے۔ اگر اس کو کھدوا دیں تو جھوٹ سچ ظاہر ہو جائے۔
بادشاه پشیمان ہوا اور حسن بانو کی تعریفیں کرنے لگا۔ جب فقیر کا مکان کھودا تو برزخ
سودا گر کا تمام مال نکالا۔ حسن بانو نے وہ سب بادشاہ کی نذر کیا اور بادشاہ کو اپنے گھر
آنے کی دعوت دی۔ بادشاہ نے اسے قبول کیا۔ پھر وہ رخصت ہو کر اپنے شہر آئی۔