Translate

Wednesday, February 26, 2020

قصہ حاتم طائی اور حیدری




وہ طاقت ور ہے‘ بہادر ہے‘ ہمدرد ہے۔ وہ سب کی مدد کرتا ہے۔ اس
میں بلا کی ہمت اور جرات ہے۔ دوسروں کی تکلیف اٹھاتا ہے۔ وہ شیر کو اپنا گوشت
پیش کرتا ہے۔ وہ گیدڑ کے بچوں کی جان بچاتا ہے۔ وہ ہرنی کو بھیڑیے کے پنجے سے
چاتا ہے۔ اس کی ہمدردی اور رحم دلی سے انسان اور جانور سب کو فائدہ پہنچتا ہے
وہ ایک شاه زادے منیر شامی کی مشکل آسان کرنے کے لیے اپنی جان جوکھوں میں
ژان ہے۔ ایک دو نہیں سات مہمیں سر کرتا ہے۔ حسن بانو سات سوال کرتی ہے۔
ہر سوال کے جواب کے لیے اسے ایک سفر ایک مہم پر جانا پڑتا ہے اور ہر قسم کی
مشکل اور خطرہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
یہ کون ہے؟ کوئی ولی ہے, کوئی جن ہے یا کوئی جانور ہے؟ نہیں ایک انسان
ہے اس کانام حاتم طائی ہے۔ حاتم دیو یا جن نہیں انسان ہے لیکن اپنی مہموں کے
دوران میں اس کا واسطہ اس قسم کی مخلوق سے پڑتا ہے۔ کبھی اس کو ایک مچھی ملتی
ہے جس کا آدها دھڑمچھلی کا اور آدھا عورت کا ہے۔ حاتم کو ایک ایسی صورت
دکھائی دیتی ہے جس کے نو ہاتھ نو پاؤں اور نو منہ ہیں ۔ اس کے منھ سے دھواں
اور شعلہ نکلتا ہے۔ حاتم کو آٹھ پاؤں اور سات سروں کا ایک جانور بھی ملتا ہے۔
اس کو کئی بزرگ ملتے ہیں۔ یہ بزرگ اس کو بھوک پیاس کے لیے روٹی دیتے اور
کنویں سے باہر نکالتے ہیں۔ حاتم کو پریوں جادو اورکالے علم کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
غرض کہ حاتم طائی کو عجیب و غریب واقعات پیش آتے ہیں۔ وہ ہمت نہیں
ہارتا۔ آخر کامیاب ہوتا ہے۔ حاتم کی انھی سات مہموں کی داستان حیدر بخش
حیدری نے بڑے مزے دار انداز میں لکھی ہے۔ یہ داستان پونے دو سو سال پہلے
۱۸۰۵ء میں فورٹ ولیم کالج کلکتے سے پچپی تھی۔ اس کتاب کا نام آرائش محفل یا
قصہ حاتم طائی رکھا گیا تھا۔ ایک صاحب نے اس کا نام "ہفت میر حاتم بھی لکھا
در بخش حیدری کا پورا نام منشی سید محمد حیدر بخش حیدری تھا۔ ان کے بزرگ
بن اشرف سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔ ان کے والد کا نام سید ابو الحسن
نجفی تھا۔ وہ دہلی میں رہتے تھے مگر جب زندگی دہلی میں تنگ ہو گئی تو وہ بنارس چلے
گئے۔ بنارس میں ولی جیسے باکمال لوگ نہیں تھے مگر خوش قسمتی سے حیدر بخش
حیدری کو بنارس میں بھی قابل لوگوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا۔ بنارس میں
نواب ابراہیم خاں خلیل عدالت کے جج تھے۔ وہ پٹنہ کے رہنے والے تھے۔ فاری
زبان بہت اچھی جانتے تھے۔ مشہور شاعر تھے۔ کئی کتابیں لکھی تھیں۔ ابوالحسن نے
اپنے بیٹے حیدری کو نواب صاحب کے حوالے کر دیا، جن سے حیدری نے بہت کچھ
.سیکھا

No comments:

Post a Comment