لکھنے والوں نے یوں لکھا ہے کہ اگلے زمانے میں یمن کا ایک بادشاہ تھا جس کا
نام تھا "طے"۔ اس کے ہاں جب ایک بیٹا پیدا ہوا تو اس نے نجومیوں سے لڑکے
کے مستقبل کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے شاہ زادے کو ہر طرح سے
صاحب اقبال پایا اور کہا، "یہ اللہ کی خوش نودی کے لیے تمام عمر کام کرتا رہے گا
بادشاہ نے ان کو انعام دیا اور شاہ زادے کا نام حاتم رکھا۔ جس دن حاتم پیدا
ہوا اسی روز ملک میں چھ ہزار بچے پیدا ہوئے۔ بادشاہ نے ان سب کی پرورش اپنے
ذمے لے لی۔ چھے ہزار دائیاں ان بچوں کے لیے رکھی گئیں اور چار دائیاں حاتم
کے واسطے مقرر کی گئیں۔ انھوں نے لاکھ کوشش کی مگر حاتم نے دودھ نہ پیا۔
بادشاہ نے فورا سیانوں کو بلوایا اور اس کا سبب پوچھا۔ وہ بولے کہ حاتم پہلے دوسرے
بچوں کو دودھ پلوائے گا، پھر خود پئے گا۔ چنانچہ جب دوسرے بچے دودھ پی چکے
تب حاتم نے بھی دودھ پیا۔ حاتم بچپن ہی سے نہ روتا نہ اکیلے کھاتا اور نہ غفلت
کی نیند سوتا۔
فضل خدا سے حاتم جب چودہ برس کا ہوا تو جو زر و جواہر باپ نے جمع کیا تھا
اسے راہ خدا میں خرچ کرنے لگا۔ جب شکار کو جاتا تو جانور کو زندہ ہی پکڑتا اور چھوڑ
دیتا۔ حسین بھی ایسا پایا تھا کہ جو دیکھتا ہزار جان سے فریفتہ ہو جاتا۔ اتفاق سے
ایک دن جنگل میں شکار کھیلنے گیا کہ اتنے میں ایک شیر غراتا ہوا نظر آیا۔ حاتم کو
اندیشہ ہوا کہ اگر خنجر مارتا ہوں تو یہ بے زبان زخمی ہو جاتا ہے یا مارا جاتا ہے
اگر چھوڑتا ہوں تو خود جان گنواتا ہوں سوچنے لگا اگر میں اسے اپنا گوشت کھلا دوں تو اسکا
پیٹ بھر جائے گا اور مجھ کو ثواب ہو گا۔ چنانچہ حاتم شیر کے آگے آیا اور بولا:
اے شیر صحرائی! میرا اور میرے گھوڑے کا گوشت حاضرہے۔ اپنا پیٹ بھر
لے اور چلا جا۔
یہ سنتے ہی شیر اپنا سر جھکا کر حاتم کے قدموں پر گر پڑا۔ یہ دیکھ کر حاتم نے کہا:
"اے شیر یہ مناسب نہیں کہ حاتم کے پاس سے تو بھوکا جائے۔ اگر مجھ کو نہیں کھانا
تو میرا گھوڑا موجود ہے۔"
شیر سر جھکا کر چلا گیا۔ غرض حا تم برابر خلق خدا کی خدمت کرتا
رہتا تھا۔
اسی زمانے میں ملک خراساں میں ایک بادشاہ تھا جس کے عدل و انصاف کا یہ
عالم تھا کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ اس جگہ برزخ نامی ایک بڑا
مال دار سوداگر رہا کرتا تھا۔ بادشاہ اس پر بڑا مہربان تھا۔ اس سوداگر کی ایک ہی بیٹی |
تھی جس کا نام تھا حسن بانو۔ سوداگر کا جب آخری وقت آیا تو حسن بانو بارہ برس
کی تھی۔ چنان چه سوداگر نے حسن بانو کو بادشاہ کے سپرد کیا اور ابدی نیند سو گیا۔
بادشاہ نے بھی اسے اپنی بیٹیوں کی طرح رکھا اور اس کے باپ کا سارا زر و جواہراسی
کو بخش دیا۔ خود لالچ نہ کیا۔
جب لڑکی بڑی ہوئ تو اپنی دائی سے کہنے گی : "اے مهربان ماں! دنيا پانی کے
بلبلے کی طرح ہے۔ اتنی دولت لے کر میں اکیلی کیا کروں گی۔ بہتر یہ ہے کہ اس کو
راہ خدا میں دے دوں اور خود شادی بیاہ بھی نہ کروں بلکہ یاد اللہ میں مشغول رہوں۔
اب تم بتا ؤکہ شادی سے کس طرح چھٹکارا پاؤں۔"
دائی نے بلائیں لے کر کہا: اے جان مادر تو ان سات سوالوں کو لکھ کر اپنے
دروازے پر لگادے اور یہ کہہ کہ جو میرے ساتوں سوال پورے کرے گا میں اس کو
قبول کروں گی۔ وہ سات سوال یہ ہیں
پہلا سوال یہ ہے کہ ایک بار دیکھا ہے دوسری بار کی ہوس ہے۔ دوسرا سوال
یہ ہے کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ بدی کسی
سے نہ کر'اگر کرے
گا تو وہی پائے گا۔ چوتھا سوال یہ ہے کہ سچ کہنے والے کے آگے ہمیشہ راحت ہے۔
پانچواں سوال یہ ہے کہ ”کوہ ندا کی خبر لا چھٹا سوال یہ ہے کہ وہ موتی جو
مرغابی کے اڈے کے برابر موجود ہے اس کی جوڑی پیدا کرے۔ ساتواں سوال یہ
ہے کہ تمام بار گرد" کی خبر لائے
No comments:
Post a Comment