Translate

Wednesday, March 4, 2020

حسن بانو کی محل واپسی(قصہ حاتم طائ)







اسی طرح روتی دھوتی ایک دوسرے جنگل میں جا پہنچی اور ایک درخت کے
سائے میں جا بیٹھی ۔ دو چار دن کی بھوکی پیاسی تو تھی ہی۔ بے اختیار نیند آگئی۔
خواب میں کیا دیکھتی ہے کہ ایک بزرگ سفید لباس پہنے سرہانے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ غم نہ کرو وہ کریم کار ساز ہے۔ اس
درخت کے نیچے سات بادشاہوں کی دولت گڑھی ہے۔ اللہ نے یہ تیرے لیے ہی چھپا
رکھی ہے۔ اب اٹھ اور اس خزانے کو اپنے کام میں لا۔ دل کو اللہ کی یاد میں لگا۔
حسن بانو نے کہا کہ میں ایک عورت ناتواں زمین کیوں کر کھودوں؟ بزرگ نے کہا:
تو ایک لکڑی سے زرا کوشش کر اور اللہ کی قدرت دیکھ کہ وہ اس مشکل کو بہت
آسان کرتا ہے۔
یہ سن کر حسن بانو چونک اٹھی اور دائی سے حقیقت کہنے لگی۔ آخر کار اس نے
اور اس کی دائ نے جب اس درخت کی جڑ ایک لکڑی سے کھو دی تو سات کنویں
اشرفیوں سے بھرے اور سو صندوق جواہر سے لبالب مع اس موتی کے جو مرغابی
کے انڈے کے برابر تھا دکھائی دیے۔ حسن بانو نہایت خوش ہوئی اور اللہ کا شکر کر
کے اور دائی سے کہنے گی کہ تم اسی گھڑی شہر سے ہمارے کنبے والوں کو لے آؤ اور
کھانے پینے کی چیز یں بھی لیتی اؤ اس نے کہا میں تجھے تنہا کیسے چھوڑوں۔ وہ اس بات
چیت میں تھیں کہ حسن بانو کا دودھ شریک بھائی فقیروں کا بھیس بنائے آنکلا.
حسن بانو نے اسے گلے لگا لیا اور دلا سادیا که تو اطمینان رکھ اللہ نے اس قدر
زر و جواہر دیا ہے کہ جس کا حساب نہیں۔ تو یہ رقم لے کر شہر سے ہمارے تمام
کنبے کو لے آ اور راج مزدور بھی تاکہ وہ ایک عالی شان عمارت تیار کریں۔
میں چاہتی ہوں کہ ایک شہربشربساؤں اور اس کا نام شاه آباد“ رکھوں ، لیکن
یہ ابھی کسی پر ظاہر نہ کرنا۔ چناں چہ وہ تھوڑے سے روپے لے کر شہر گیا اور تمام
عزیزوں کو لے کر حسن بانو کے پاس گیا۔ وہ سب بہت خوش ہوئے ایک بڑا
سا خیمہ لگا کر اس میں رہنے لگے.
اس کے بعد وہ کاری گروں کو لے آیا اور مہینے میں ایک حویلی
تیار ہوگئی۔ پھر حسن بانو نے حویلی کے گرد ایک عالی شان شہر آباد کرنے کا ارادہ کیا۔
اس پر لوگوں نے کہا کہ بادشاہ کی مرضی کے بنا اتنا بڑا شهربسانا اچھا نہیں۔ یہ سن کر
حسن بانو نے مردانہ لباس پہنا اور ایک عربی گھوڑے پر سوار ہو چند پیادوں کو آگے
رکھا ایک خوان جواہر اور ایک یاقوت کا اپنے ساتھ لے کر شہر کی طرف روانہ
ہوئی۔
بادشاہ کو خبر ہوئی کہ ایک سوداگر بچہ حضور کی قدم بوسی کے لیے آیا ہے۔ بادشاہ
نے اجازت دی تو وہ حاضر ہو کر آداب بجا لائی اور نذر کے خوان پیش کر کے امید
وار مہربانی کی ہوئی۔ بادشاہ نے خوش ہو کر پوچھا کہ تم کسی شہر کے رہنے والے ہو
اور کسی کام کو آئے ہو۔ تمھارا نام کیا ہے؟
وہ ہاتھ باندھ کر بولی : "میں فلاں سوداگر کا بیٹا ہوں۔ والد جہاز پر مر گئے۔
عرصے سے قدم بوسی کی آرزو تھی۔ آج قسمت کی مدد سے یہاں تک پہنچا ہوں۔
اب باقی عمر حضور کے سائے میں بسر کرنا چاہتا ہوں۔ لذا اگر کم ہو تو فلاں جنگل
میں ایک شہر آباد کر کے نام اس کا ’’شاه آباد" رکھوں۔"
بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا:
آج سے تو میری فرزندی میں داخل ہے۔ جہاں چاہے وہاں رہ جو چاہے سو کر
حسن بانو نے آداب بجا لا کر کہا:
اے خداوند اگر غلام کو شاہ زادوں میں شمار کیا ہے تو کسی عمده خطاب سے
بھی سرفراز فرمایئے۔ میرا نام بہرام ہے۔ جو اس لائق نہیں۔ جہاں پناہ نے اس
بات کو پسند کیا اور اس کا نام ”ماه روشاه" رکھا اور ہر ایک کارکن کو حکم دیا کہ اس
شہر کو آباد کرنے میں مشغول ہو جائیں۔
حسن بانو مہینے میں دو تین بار بادشاہ کو سلام کرنے آتی رہتی تھی۔ دو برس کے
بعد ایک عظیم شہر آباد کیا۔ نام اس کا شاه آباد رکھا۔ ایک دن بادشاہ کو سلام کرنے
جو آئی تو بادشاہ اس وقت اس درویش بزرگ صورت‘ مگر شیطان سیرت کے ہاں
جانا چاہتے تھے۔ حسن بانو کو دیکھ کر کہنے لگے کہ فرزند آج ہم تم دونوں اس بزرگ
کی خدمت میں حاضر ہوں۔ غرض حسن بانو بادشاہ کے ساتھ اس فقیر کے گھر گئی اور
بادشاہ اس شیطان کے آگے اس کی تعریف کرنے لگا۔
حسن بانو اب ماه روشاہ کے نام سے مشہور تھی۔ سر جھکا کر تعریفیں سنتی رہی۔
جب رخصت ہونے لگے تو ماه روشاه نے اس فقیر سے کہا کہ اگر پیر و مرشد اس
کے گھر میں قدم رنجہ فرمائیں تو عین نوازش ہو۔
اس شیطان سیرت نے آنے کا وعدہ کر لیا - ماه روشاه نے پھر بادشاہ سے کہا کہ
میری حویلی دور ہے۔ لہذا اگر برزخ سوداگر کی خالی حویلی دو چار روز کے لیے عنایت
کریں تو غلام اس ولی کی دعوت وہیں کرے۔ بادشاہ نے کہا: ”اے ماہ روشاه ‘ وہ
حویلی مرمت طلب تھی اس کو درست کیا گیا اور نہایت قیمتی سامان سے
آراستہ کیا گیا۔ ماہ روشاہ پھر بادشاہ کے پاس گیا اور بولا :
جہاں پناہ ارادہ ہے کہ چند روز برزخ سوداگر کی حویلی میں رہوں۔ سلام کو
بھی روز حاضر ہوا کروں، لیکن کل اپنے پیرو مرشد کی تواضع کریں۔
بادشاه نے فرمایا: "بہت بہتر»
بادشاہ سے رخصت ہو کر حسن بانو نے ایک آدمی سے کہا کہ تو جاکر اس فقیر
سے یہ عرض کر کہ کل اگر تشریف لے آئیں تو بڑا کرم ہو۔ فقیر نے دعوت قبول کر
لی اور صبح کو فقیروں کو ساتھ لیے سونے کی اینٹوں پر پاؤں رکھتا ہوا چلا۔ شاہ زادے
نے اس کو مسند شاہانہ پر بٹھایا زرو جواہر کے خوان پیش کیے مگر فقیر نے قبول نہ
کیے۔ پھر کئی خان میوے کے منگوائے اور ایک دستر خوان زر مفت کا بچھوایا اور
ہاتھ دھلا کر عرض کی کہ پیرو مرشد کچھ نوش فرمائیں۔ یہ سن کر اس نے ہاتھ بڑھايا
مگر دو چار لقمے کھا کر کہا کہ بس، فقیروں کو پیٹ بھر کر کھانا اچھا نہیں۔ عبادت نہ کر
سکیں گے مگر فقیر اپنے دل میں کہتا تھا کہ سب اسباب اپنا ہی ہے
پھر ایک
عطر دان پان دان آگے لا کر رکھا۔ اس نے عطر ملا اور گھڑی دو گھڑی کے بعد
فقیر اپنے گھر آکر چوروں سے کہنے لگا کہ آج ہی رات تمام اسباب جا کر اپنے
گھر لے آئیں۔ جب رات ہو گئی تو اس نے چوروں کے کپڑے پہنے اور انھی
چالیس کو لے کر اس حویلی کی طرف چلا۔ ماه روشاه نے تمام اسباب اسی طرح
رہنے دیا تھا اور اپنے آرمیوں کو کہہ رہا تھا کہ مستر بیٹھے رہیں اور ایک رقعه شهر
کے کوتوال کو لکھ بھیجا کہ آج کی رات ڈاکا پڑنے کی خبر ہے۔ تم کچھ آدمیوں کو لے
کر جلد آؤ اور کونے میں چھے گھات میں رہو۔ جس وقت حویلی سے شور و غل کی
آواز بلند ہو اسی گھڑی تم آجانا اور چوروں کو باندھ لیا چناں چہ کوتوال دو سو پیادوں
کے ساتھ حویلی کے دائیں بائیں آ کر بیٹھ رہا کہ اتنے میں وہ فقیر اپنے چوروں کے
ساتھ حویلی میں جاگھسا اور اسباب لوٹنے لگا۔ ہر ایک نے گٹھڑی باندھ کر سر پر رکھی۔
وہ فقیر بھی مرصع طاؤس کو لے کر حویلی سے باہر نکلا۔ پیادے تو ان کی تاک میں تھے
۔ اپنی اپنی جگہ سے کودے اور ان کو باندھنے لگے ۔ اس قدر شور و غل ہوا کہ کوتوال خود چلا
آیا۔ حسن بانوان دشمنوں کو گرفتار دیکھ کر نہایت خوش ہوئی۔
صبح کو بادشاہ تخت پر جلوہ افروز ہوئے وزیر امیر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔
اتنے میں کوتوال ان سب کو باندھے ہوئے آیااور بولا :
”جہاں پناه رات برزخ سوداگر کی حویلی میں چوری ہوئی ۔ یہ نمک خوار وہاں
پڑا اور چوروں کو مع زر و جواہر کے لیے آیا ہوں۔ بہ ظاہر صورت آشنا معلوم
ہوتے ہیں۔
اتنے میں ماہ روشاہ بھی آ گیا۔ بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ اے فرزند رات
تمھارے ہاں چور آگئے؟ اس نے کہا:
” ہاں اگر کوتوال وقت پر نہ پہنچا تو میں مارا جاتا۔»
یہ سن بادشاہ نے کہا کہ چوروں کو ہمارے سامنے لاؤ۔ چور لائے گئے۔ بادشاہ
اٹھا اور بولا کہ اے فرزند یہ تو ہمارے ارزق شاہ صاحب معلوم ہوتے ہیں۔ انھیں
اور نزدیک لاؤ۔ چناں چہ وہ آگے آئے اور بہ خولی پہچانے گئے۔ کوتال کو حکم دیا کہ
ان کی گٹھریاں اور کریں کولو جب تلاشی لی گئی تو ہر ایک کے پاس سے مال اور
کمندیں اور پانیاں نکلیں۔
بادشاہ نے کہا کہ ان کو ابھی سولی دو تاکہ پھر کوئی ایسی دغا بازی نہ کرے
۔ بادشاہ کے
زبان ہلانے کی دیر تھی کہ جلاد نے ہر ایک کا کام تمام کیا۔
تب حسن بانواٹھی اور ہاتھ باندھ کر بولی: ”جہاں پناه! یہ لونڈی برزخ سوداگر کی
بیٹی ہے۔ حضور نے اس بے حیا فقیر کے واسطے لونڈی کو شہر بدر کیا تھا۔ میرے باپ
کا مال اس کے گھر میں ہے۔ اگر اس کو کھدوا دیں تو جھوٹ سچ ظاہر ہو جائے۔
بادشاه پشیمان ہوا اور حسن بانو کی تعریفیں کرنے لگا۔ جب فقیر کا مکان کھودا تو برزخ
سودا گر کا تمام مال نکالا۔ حسن بانو نے وہ سب بادشاہ کی نذر کیا اور بادشاہ کو اپنے گھر
آنے کی دعوت دی۔ بادشاہ نے اسے قبول کیا۔ پھر وہ رخصت ہو کر اپنے شہر آئی۔

Monday, March 2, 2020

(قصہ ایک فقیر کا(قصہ حاتم طائ سے





حسن بانو کو یہ مشورہ پسند آیا اور سوچنے لگی کہ ایسا کون ہوگا جو ان سوالوں کا
جواب لائے گا۔ انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں وہ آٹھوں پہر نماز روزے میں
مشغول رہنے لگی۔ ایک دن اپنے کوٹھے پر بیٹھی بازار کا تماشا دیکھ رہی تھی کہ اتنے
میں ایک فقیر نہایت بزرگ صورت چالیس خادموں کو لیۓ اس طرف اس ادا سے
گزرا کہ پاوں بھی زمین پر نہ رکھتا تھا۔ اس کے خادم سونے کی اینٹیں قدم تلے
رکھتے جاتے تھے اور وہ ان پر پیر رکھتا ہوا چلا جاتا تھا۔ یہ دیکھ کر حسن بانو اپنی
دائی سے کہا:
اے اماں جان! یہ فقیر با صاحب کمال معلوم ہوتا ہے۔
دائی نے کہا : ”اماں واری! یہ بادشاہ کا پیر ہے۔ بارشاه مہینے میں دو چار بار اس
کے پاس جاتا ہے اور یہ بھی کبھی کبھی بادشاہ کے پاس آتا ہے۔ اس پر حسن بانو بولی
"اگر تم اجازت دو تو اس درویش کو گھڑی دو گھڑی کے لیے اپنے گھر آنے کی
زحمت روں
دائی نے کہا : اس میں کیا پوچھنا ہے۔ مثل مشہور ہے آنکھوں سکھ کلیجے ٹھنڈک
غرض دوسرے دن وہ فقیر اپنے چالیس فقیروں کے ساتھ حسن بانو کے گھر
آپہنچا۔ حسن بانو نے دروازے سے لے کر نشست گاہ تک زر کا فرش پہلے
ہی سے کروا رکھا تھا۔ وہ اس کو روندتا ہوا مسند شاہانہ پر آبیٹھا۔ خواجہ سرا زر و
جواہر کی کشتیاں اس کے آگے لے آئے۔ اس نے کبھی قبول نہ کیا۔ پھر بہت سے
خان شیرینی اور میوے کے لے آئے اور سونے چاندی کے برتنوں میں تم تم کے
کھانے رکھ کر اس کے ہاتھ دھلوائے اور عرض کرنے لگے کہ ہماری بی بی کی التجا
ہے کہ آپ کچھ تناول فرمائیں۔ یہ سن کر وہ مکار کھانا کھانے لگا اور سونے چاندی
کے اسباب کو بھانپنے لگا۔ وہ ہر نوالے کے ساتھ یہ سوچتا رہا کہ آج کی رات یہ تمام
قیمتی سامان اپنے گھر لے جاؤں گا۔ کھانے کے بعد جڑاؤ عطردان لایا گیا ۔ اس نے
عطر اپنی داڑھی اور پوشاک میں ملا اور حسن بانو کو دعائیں دے کر چلا گیا۔
اتنے میں رات ہو گئی۔ حسن بانو کے گھر کے لوگ کام کاج میں اتنے تھک گئے
تھے کہ بے اختیار پاؤں پھیلا کر سو رہے۔ نہ دروازے بند کیے اور نہ اسباب و جواہر
کو ٹھکانے رکھا۔ بعد دو پہر رات کے وہ ڈکیت اپنے چالیس چوروں کے ساتھ اس
کی حویلی پر آپڑا اور تمام زر و جواہر غارت کرنے لگا۔ اس عرصے میں جو لوگ جاگے وہ ان ظالموں کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور پھر مارے گئے۔
حسن بانو اپنے کوٹھے کی کھڑکی سے جھانک جھانک کر دیکھتی تھی اور ان کو پہچان
کر افسوس کرتی تھی کہ یہ تو وہی فقیر ہے۔ غرض رات جوں توں کاٹی صبح کو
مردوں اور زخمیوں کو لے کر بادشاہ کے پاس حاضرہوئی۔ رات کا سارا قصہ گوش گزار کیا
بادشاہ سے اس نے کہا
کل لونڈی نے اس فقیر کی مہمانی کی تھی۔ سو اس نے دو پہر رات گئے چالیس
چوروں کے ساتھ مجھ غریب کا گھر لوٹا۔ دس بیس کو زخمی کیادو چار کو مار ڈالا اور
گیارہ بارہ لاکھ روپے کا زرو جواہر و نقد و اسباب لے گیا۔ خدا اس کا منہ کالا کرے
کہ اس نے اس قدر ظلم و ستم کیا۔
یہ سنتے ہی بادشاہ غصے میں آ گیا اور بولا: ”نادان تھے کچھ شعور بھی ہے جو اپنے ولی
پر تہمت لگاتی ہے۔ وہ تو تمام جہان کی چیزوں سے نفرت کرتا ہے۔ حسن بانو نے پھر عرض کی کہ اے حضرت! ایسے کافر کو ولی نہ کہئیے۔ یہ تو شیطان سے بھی زیادہ برا
ہے۔ یہ سن کر بادشاہ اور بھی برہم ہوگیا اور بولا:
ارے کوئی ہے!اس بد بخت کو میرے سامنے ہی سنگار کرے۔
اتنے میں ایک نیک وزیر آیا اور پایہ تخت چوم کر بولا : "جاں پناہ! یہ اسی
برزخ سوداگر کی بیٹی ہے جس کے سر پر آپ ہمیشہ شفقت فرماتے تھے اور اپنے پاس
بھلاتے تھے۔ آج اس کو سنگسار کرتے ہیں۔ اگر اس کے ساتھ یہ سلوک ہوا تو ہر
ایک اس اندیشے سے بھاگ جاۓ گا کہ جہاں پناہ ہمارے بعد ہماری اولاد سے بھی ایسا
سلوک کریں گے اور اس خیال سے آپ کے غلام ایک ایک کر کے بھاگنا شروع کر
دیں گے اور کیا عجب ہو کہ د شمنوں سے جا ملیں۔ یہ عرض کرنی واجب تھی، آگے جو
مرضی خداوند کی۔
یہ سن کر بادشاہ بولا: ”اے دانش مند میں نے تیری سفارش اور برزخ سوداگر
کی خاطر سے اس کی جان بخشی کی مگر یہ آج ہی اس شہر سے نکل جا میرے
آدمی اس کو جلا وطن کریں اور اس کے گھر کا سارا سا مان( لباس
وغیرہ) مکان میں داخل کریں۔ چناں چہ فوج تیار کی گئی اور حسن بانو کو گھر
سے بے گھر کر کے گھر کا سارا سامان جو اس فقیرسے بچا تھا اٹھا لے گئی اور وہ غریب
اپنی دائی کے ساتھ ایک جنگل میں جا پڑی۔ جنگل میں پہنچ کر اپنی دائی سے کہتی
تھی کہ نہ جانے ایسی کیا خطا ہوئی جو میں اس عذاب میں پڑی۔ وہ اس کو گلے لگا کر
یوں دلاسا دیتی تھی کہ بی بی صبر کر۔ اگر اللہ فضل کرے گا تو پھر سب ٹھیک ہو کے رہے گا.

Saturday, February 29, 2020

حسن بانو کے سات سوالات



لکھنے والوں نے یوں لکھا ہے کہ اگلے زمانے میں یمن کا ایک بادشاہ تھا جس کا
نام تھا "طے"۔ اس کے ہاں جب ایک بیٹا پیدا ہوا تو اس نے نجومیوں سے لڑکے
کے مستقبل کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے شاہ زادے کو ہر طرح سے
صاحب اقبال پایا اور کہا، "یہ اللہ کی خوش نودی کے لیے تمام عمر کام کرتا رہے گا
بادشاہ نے ان کو انعام دیا اور شاہ زادے کا نام حاتم رکھا۔ جس دن حاتم پیدا
ہوا اسی روز ملک میں چھ ہزار بچے پیدا ہوئے۔ بادشاہ نے ان سب کی پرورش اپنے
ذمے لے لی۔ چھے ہزار دائیاں ان بچوں کے لیے رکھی گئیں اور چار دائیاں حاتم
کے واسطے مقرر کی گئیں۔ انھوں نے لاکھ کوشش کی مگر حاتم نے دودھ نہ پیا۔
بادشاہ نے فورا سیانوں کو بلوایا اور اس کا سبب پوچھا۔ وہ بولے کہ حاتم پہلے دوسرے
بچوں کو دودھ پلوائے گا، پھر خود پئے گا۔ چنانچہ جب دوسرے بچے دودھ پی چکے
تب حاتم نے بھی دودھ پیا۔ حاتم بچپن ہی سے نہ روتا نہ اکیلے کھاتا اور نہ غفلت
کی نیند سوتا۔
فضل خدا سے حاتم جب چودہ برس کا ہوا تو جو زر و جواہر باپ نے جمع کیا تھا
اسے راہ خدا میں خرچ کرنے لگا۔ جب شکار کو جاتا تو جانور کو زندہ ہی پکڑتا اور چھوڑ
دیتا۔ حسین بھی ایسا پایا تھا کہ جو دیکھتا ہزار جان سے فریفتہ ہو جاتا۔ اتفاق سے
ایک دن جنگل میں شکار کھیلنے گیا کہ اتنے میں ایک شیر غراتا ہوا نظر آیا۔ حاتم کو
اندیشہ ہوا کہ اگر خنجر مارتا ہوں تو یہ بے زبان زخمی ہو جاتا ہے یا مارا جاتا ہے
اگر چھوڑتا ہوں تو خود جان گنواتا ہوں سوچنے لگا اگر میں اسے اپنا گوشت کھلا دوں تو اسکا
پیٹ بھر جائے گا اور مجھ کو ثواب ہو گا۔ چنانچہ حاتم شیر کے آگے آیا اور بولا:
اے شیر صحرائی! میرا اور میرے گھوڑے کا گوشت حاضرہے۔ اپنا پیٹ بھر
لے اور چلا جا۔
یہ سنتے ہی شیر اپنا سر جھکا کر حاتم کے قدموں پر گر پڑا۔ یہ دیکھ کر حاتم نے کہا:
"اے شیر یہ مناسب نہیں کہ حاتم کے پاس سے تو بھوکا جائے۔ اگر مجھ کو نہیں کھانا
تو میرا گھوڑا موجود ہے۔"
شیر سر جھکا کر چلا گیا۔ غرض حا تم برابر خلق خدا کی خدمت کرتا
رہتا تھا۔
اسی زمانے میں ملک خراساں میں ایک بادشاہ تھا جس کے عدل و انصاف کا یہ
عالم تھا کہ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔ اس جگہ برزخ نامی ایک بڑا
مال دار سوداگر رہا کرتا تھا۔ بادشاہ اس پر بڑا مہربان تھا۔ اس سوداگر کی ایک ہی بیٹی |
تھی جس کا نام تھا حسن بانو۔ سوداگر کا جب آخری وقت آیا تو حسن بانو بارہ برس
کی تھی۔ چنان چه سوداگر نے حسن بانو کو بادشاہ کے سپرد کیا اور ابدی نیند سو گیا۔
بادشاہ نے بھی اسے اپنی بیٹیوں کی طرح رکھا اور اس کے باپ کا سارا زر و جواہراسی
کو بخش دیا۔ خود لالچ نہ کیا۔
جب لڑکی بڑی ہوئ تو اپنی دائی سے کہنے گی : "اے مهربان ماں! دنيا پانی کے
بلبلے کی طرح ہے۔ اتنی دولت لے کر میں اکیلی کیا کروں گی۔ بہتر یہ ہے کہ اس کو
راہ خدا میں دے دوں اور خود شادی بیاہ بھی نہ کروں بلکہ یاد اللہ میں مشغول رہوں۔
اب تم بتا ؤکہ شادی سے کس طرح چھٹکارا پاؤں۔"
دائی نے بلائیں لے کر کہا: اے جان مادر تو ان سات سوالوں کو لکھ کر اپنے
دروازے پر لگادے اور یہ کہہ کہ جو میرے ساتوں سوال پورے کرے گا میں اس کو
قبول کروں گی۔ وہ سات سوال یہ ہیں
پہلا سوال یہ ہے کہ ایک بار دیکھا ہے دوسری بار کی ہوس ہے۔ دوسرا سوال
یہ ہے کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ بدی کسی
سے نہ کر'اگر کرے
گا تو وہی پائے گا۔ چوتھا سوال یہ ہے کہ سچ کہنے والے کے آگے ہمیشہ راحت ہے۔
پانچواں سوال یہ ہے کہ ”کوہ ندا کی خبر لا چھٹا سوال یہ ہے کہ وہ موتی جو
مرغابی کے اڈے کے برابر موجود ہے اس کی جوڑی پیدا کرے۔ ساتواں سوال یہ
ہے کہ تمام بار گرد" کی خبر لائے

Wednesday, February 26, 2020

قصہ حاتم طائی اور حیدری




وہ طاقت ور ہے‘ بہادر ہے‘ ہمدرد ہے۔ وہ سب کی مدد کرتا ہے۔ اس
میں بلا کی ہمت اور جرات ہے۔ دوسروں کی تکلیف اٹھاتا ہے۔ وہ شیر کو اپنا گوشت
پیش کرتا ہے۔ وہ گیدڑ کے بچوں کی جان بچاتا ہے۔ وہ ہرنی کو بھیڑیے کے پنجے سے
چاتا ہے۔ اس کی ہمدردی اور رحم دلی سے انسان اور جانور سب کو فائدہ پہنچتا ہے
وہ ایک شاه زادے منیر شامی کی مشکل آسان کرنے کے لیے اپنی جان جوکھوں میں
ژان ہے۔ ایک دو نہیں سات مہمیں سر کرتا ہے۔ حسن بانو سات سوال کرتی ہے۔
ہر سوال کے جواب کے لیے اسے ایک سفر ایک مہم پر جانا پڑتا ہے اور ہر قسم کی
مشکل اور خطرہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
یہ کون ہے؟ کوئی ولی ہے, کوئی جن ہے یا کوئی جانور ہے؟ نہیں ایک انسان
ہے اس کانام حاتم طائی ہے۔ حاتم دیو یا جن نہیں انسان ہے لیکن اپنی مہموں کے
دوران میں اس کا واسطہ اس قسم کی مخلوق سے پڑتا ہے۔ کبھی اس کو ایک مچھی ملتی
ہے جس کا آدها دھڑمچھلی کا اور آدھا عورت کا ہے۔ حاتم کو ایک ایسی صورت
دکھائی دیتی ہے جس کے نو ہاتھ نو پاؤں اور نو منہ ہیں ۔ اس کے منھ سے دھواں
اور شعلہ نکلتا ہے۔ حاتم کو آٹھ پاؤں اور سات سروں کا ایک جانور بھی ملتا ہے۔
اس کو کئی بزرگ ملتے ہیں۔ یہ بزرگ اس کو بھوک پیاس کے لیے روٹی دیتے اور
کنویں سے باہر نکالتے ہیں۔ حاتم کو پریوں جادو اورکالے علم کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
غرض کہ حاتم طائی کو عجیب و غریب واقعات پیش آتے ہیں۔ وہ ہمت نہیں
ہارتا۔ آخر کامیاب ہوتا ہے۔ حاتم کی انھی سات مہموں کی داستان حیدر بخش
حیدری نے بڑے مزے دار انداز میں لکھی ہے۔ یہ داستان پونے دو سو سال پہلے
۱۸۰۵ء میں فورٹ ولیم کالج کلکتے سے پچپی تھی۔ اس کتاب کا نام آرائش محفل یا
قصہ حاتم طائی رکھا گیا تھا۔ ایک صاحب نے اس کا نام "ہفت میر حاتم بھی لکھا
در بخش حیدری کا پورا نام منشی سید محمد حیدر بخش حیدری تھا۔ ان کے بزرگ
بن اشرف سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے۔ ان کے والد کا نام سید ابو الحسن
نجفی تھا۔ وہ دہلی میں رہتے تھے مگر جب زندگی دہلی میں تنگ ہو گئی تو وہ بنارس چلے
گئے۔ بنارس میں ولی جیسے باکمال لوگ نہیں تھے مگر خوش قسمتی سے حیدر بخش
حیدری کو بنارس میں بھی قابل لوگوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا۔ بنارس میں
نواب ابراہیم خاں خلیل عدالت کے جج تھے۔ وہ پٹنہ کے رہنے والے تھے۔ فاری
زبان بہت اچھی جانتے تھے۔ مشہور شاعر تھے۔ کئی کتابیں لکھی تھیں۔ ابوالحسن نے
اپنے بیٹے حیدری کو نواب صاحب کے حوالے کر دیا، جن سے حیدری نے بہت کچھ
.سیکھا

Tuesday, February 25, 2020

تاریخ کے جھرونکوں سے



یورپ میں پندرھویں صدی عیسوی میں جب 
علم وادب کا ذوق شوق بڑھ گیا تو
وہاں علوم کو دوبارہ زندہ کرنے کی تحریک شروع ہوئی۔ عالموں ادیبوں اور شاعروں
نے یونان اور روم کے پرانے مصنفوں, ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں کو بہترین قرار
دے کر انھیں کلاسیک کا نام دیا۔ یہ لفظ پوری دنیا بھر میں مقبول ہوا۔ اب ہر ملک
اپنے ماضی کے بہترین ادب کو کلاسک یا کلاسیکی ادب کہتا ہے۔ اردو میں کلاسک کا
ترجمہ ادب عالیہ ہے۔
اردو ادب عالیہ کے دور ماضی کی کئی کتابیں ہیں جن میں باغ و بار آرائش
محفل یا قصہ حاتم طائی اور تراکمانی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ داستانی ادب کا زمانہ تھا۔
ایک طرف تو خوب صورت داستانیں لکھی جارہی تھیں اور دوسری طرف خوش کلام
داستان گو تھے جو محفل میں فی لفظ اور آواز کے مناسب زیرو بم کے ساتھ اپنے
مخصوص طرز ارا میں مزے لے لے کر داستان سناتے تھے اور حاضرین اس سے
محظوظ ہوتے تھے۔ اردو میں داستان سرائی در تک مقبول نہیں ہے۔ بعد میں فسانہ
آزاد اور فسانہ اب جیسی لازوال کتابیں لکھی گئیں۔ ان سب داستانوں نے بے
شمار افسانوی کردار متعارف کرائے اور سب سے اہم بات بی ۔ انھوں نے فصیح اور
معیاری اردو کو مقبول اور ہر دل عزیز بنایا۔
انہی میں سے ایک کردار حاتم طائی ہے جو مقبولیت کی بلندیوں کو چھو چکا ہے
آ نے والی اشاعت میں انشاء اللہ قصہ حاتم طائ
کو شائع کیا جاۓ گا

Monday, February 24, 2020

...............فرق




......میں بالکل بھی اچھی نہیںں
 
مجھے کوئ ہنس کہ بلا لے تو لگتا ہے میرے ساتھ مخلص ہے
کچھ دیر بعد وہی انسان مجھ پہ ہنس رہا ہوتا ہے
........کیونکہ میں اچھی نہیں ہوں
جب بھی کوئ نیا رشتہ بنایا تو لگا یہ ساتھ دے
گا
مگر اپنا مطلب پورا ہوتے ہی لوگ بد ل گئے
میں اپنی خوشیوں کو دوسروں کی ضرورتوں پہ ترجیح دیتی ہوں
.......کیونکہ میں اچھی نہیں ہوں
میں ہر شخص پہ اندھا یقین کر لیتی ہوں اہم ر وہ شخص مجھے اندھا ثابت کر ہی دیتا
.......کیونکہ میں اچھی نہیں ہوں
جو مجھے اپنا کہ دے میں اسے اپنا مان لیےی ہوں یہ سوچے بغیر
اپنا کہنے اور ہونے میں فرق ہوتا ہے
میں یہ فرق نہیں سمجھ پائ
....... کیونکہ میں اچھی نہیں ہوں

Saturday, February 22, 2020

سرخ چڑیا

.......ہرے بھرے اک پیڑ پر
اک سرخ چڑیا اداس ہے
............اداس یوں کہ
آنکھوں میں اداسی ہے
نہ ہونٹوں پہ مسکان ہے
شجر ثمر سے لدے ہوۓ
پر چڑیا کیوں انجان ہے؟؟؟؟؟؟
!!!!ارے وہ دیکھو کسی اوڑھ سے
گھنگور گھٹا ہے آنے کو
جل تھل ہوگا اب بن سارا
پنچھی بھی تو چہکیں گے
اب جنگل میں منگل ہوگا
اور جھوم کے ساون آۓ گا
یوں کھل اٹھے گا بن سارا
بشر بھی جھومے گاۓ گا
وہ پاس گاؤں کا چرواہا
کوئ دھن بانسری پہ بجاۓ گا
وہ ننھا سا اک منا جو
اکثر چڑیا کو دیکھتا ہے
اور دیکھ کے یوں اچھلتا ہے
اسے بھیینچ کے اپنی مٹھی میں
اک دن وہ اسے لے جاۓ گا
بادل بھی اب ہے برسنے کو
اب سب جل تھل ہو جاۓ گا
اب تو چڑیا بھی ہنس دے گی 
 پر پھیلا کے گگن میں
رقص کرے گی یوں چڑیا
سب کو ششدر کردے گی
اک برسات کی چاہت میں
 چڑیا نےکتنے دکھ جھیلے
پر کس کو خبر یہ ساون تو
چڑیا کو راس نہ آۓ گا
تنکا تنکاجو آشیاں ہے 
اپنا ہی بکھرتا جا ۓ گا
وہ آن کھڑی ہے مست ہوا
پر چڑیا اب نہ چہکے گی
کچھ خواب ادھورے ہی اچھے
یہ آج سمجھ میں آیا ہے
چڑیا کو جب بے جان پڑا
یوں شاخ پہ میں نے پایا ہے